نکاح ایک عام سا تین حرفی لفظ
مگرکتنی
وسعت و جامعیت کا حامل
اپنی ذات ہی میں کتنا مقدس و حرمت کا محتمل
زبان پر لفظ نکاح آتا نہیں
کہ تصور کے پردے پر ایک مکمل آییڈیل خانگی و معاشرتی زندگی کا خاکہ ابھر آتا ہے
جسمیں خوشیاں
وفاییں
محبت و خلوص
عزت و احترام کے خوشنما رنگ جھلملاتے رنگ نظر آنے لگتے ہیں
نوع انسانی کی فلاح و بہبود بھی اسی راز یعنی نکاح میں مضمر ہے
تمام جرایم مہلک امراض بدنیتی ہوس پرستی و زنا جیسے قبیح فعل کے ارتکاب کی روک تھام کا واحد ذریعہ یہی ہے
نگاہوں کا تقدس اور شرمگاہوں کی حفاظت کا بہی یہی ایک رہنما اصول ہے کویی
ملک اور معاشرہ خواہ ترقی کے کتنے ہی منازل کیوں نہ طے کرلے جہاں جسموں کی خریداری اور فحاشیوں کے اڈے قائم ہوں رشتوں کا تقدس واحترام ملحوظِ خاطر نہ ہو وہ قلبی اور ذہنی طور پر بیمار اور گھن ذدہ تہذیب ہے وہ گویا ایسے ناسور سے جھوجھ رہی ہے جو اسکے درست ا ور صحتمند اعضاء کو بہی اپنی چپیٹ میں لے گی یورپ اور امریکہ جیسے سپرپاور ممالک اپنی اس گھن ذدہ تہذیب کی سڑاند اور تعفن سے تنگ آچکی ہے
آج نوجوان لڑکے اور لڑکیاں محبتوں اور معاشقوں کے نام پر سراسر بے حیائ و فحاشی کا کھیل کھیلتے ہیں
جو ابھی نکاح کے بندھن سے آزاد ہیں
وہ اپنی جذباتی ہوس کو تسکین پہونچانے کے لیے رات کی تاریکیوں میں پیسوں کے بل پر عارضی سکون خرید کر بدلے میں ہمیشگی کا عذاب مولتے ہیں
اسسرعام
تحصال ہوتاہے اور یہ وبا کچھ اسقدر تیزی سے پھیلی کہ کوئی بھی گھرانہ اس سے محفوظ نہیں رہا
لڑکے تو دور کی بات شرم و حیا کی پوٹلی لڑکیوں کے لئے بھی خفیہ دوست رکھنا کوئی عار کی بات نہیں ہے
ہرگھر
میں زنا کھلے عام ہورہاہے انٹرنیٹ وہاٹس ایپ فیسبک و دیگر سوشل میڈیا سائٹس کے ذریعے زبان کا زنا ہاتھ کا زنا آنکھوں کا زنا
Next
Comments
Post a Comment