سات سو درہم بنتی تھی ابنِ جریر نے زندگی میں تین لاکھ اٹھاون ہزار اوراق لکھے ابن جوزی کے آخری غسل کے واسطے پانی گرم کرنے کے لئے وہ برادہ ہی کافی ہوگیا تھا جو صرف حدیث لکھتے ہوئے انکے قلم بنانے میں جمع ہو گیا تھا علامہ باقلانی نے صرف معتزلہ کے رد میں ستر ہزار اوراق لکھے امام شافعی رحمہ االلہ فرماتے ہیں کہ ایک مدت تک میں صوفیہ کرام کے پاس رہا، انکی صحبت سے مجھے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ الوقت سیف اقطعہ و الا قطعک وقت تلوار کی مانند ہے تم اسکو کاٹ دو ورنہ وہ تجھے کاٹ دے گا اور دوسرے یہ کہ اپنے نفس کی حفاظت کرو کیونکہ اگر تونے اسے اچھے کام میں مشغول نہ کیا تو وہ تجھے کسی برے کام میں مشغول کر دے گا اور حقیقت تو یہی ہے کہ انسان کے ذمے کام بہت ذیادہ ہیں اور وقت بہت مختصر انسان کا مستقل موہوم ہے اسکا حال ثبات سے خالی ہے اور اس کا ماضی اسکی قدرت سے باہر جسنے حال سے فائدہ اٹھایا طلب و محنت جاری رکھی اور اپنی دنیا آپ زندوں میں پیدا کی اسکے دامنِ نصیب میں کچھ آجاتا ہے ورنہ اس گردش کی تنگی داماں کا کوئی علاج نہیں نہ یہ کسی کی خاطر رکتی ہے اور نہ گزر جانے کے بعد واپس لایی جاسکتی ہے اقبال نے کتنی خوبصورتی سے زمانہ کی حقیقت اسکی بیوفائی اور اس کی بے نیازی کے چہرہ سے نقاب کشائی کی ہے جو تھا نہیں ہے جو ہے نہ ہوگا یہی ہے اک حرف محرمانہ ،قریب تر ہے نمود جسکی اسی کا مشتاق ہے زمانہ، (زمانہ خود اپنی کیفیت اپنی زبانی پیش کررہا ہے کہ)مری صراحی سے قطرہ قطرہ نیے حوادث ٹپک رہے ہیں،میں اپنی تسبیح روزوشب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ،ہر ایک سے آشنا ہوں لیکن جدا جدا رسم ہ راہ مری ،کسی کا راکب کسی کا مرکب کسی کو عبرت کا تازیانہ،نہ تھا اگر تو شریک محفل قصور تیرا ہے یا کہ میرا ، مرا طریقہ نہیں کہ رکھ لوں
एक जमाने से बस देखना और सिर्फ देखना अजीब दिन थे वह भी इतनी भी हिम्मत नहीं होती थी कि कुछ अपने बारे में बता सकें बस देखे जा रहे हैं आखिर को वह थक ही गऐ और एक रोज़ सरे राह हाथ पकड़ के अपना नम्बर दे गऐ और कह गए अगर तुम्हारे पास कुछ है मुझ से कहने के लिए तो मुझे फून करना यह कहा और चल दिए उस वक़्त केया मैं ने महसूस किया मैं बयां नहीं कर सकता खैर वह वक़्त भी गुज़र गया अब बातें शुरू हो गईं दिन तमाम रात सारी बातें जारी बस यही चलने लगा फिर महीने दो महीने गुज़रने के बाद अब मुलाकात का नया बाब शुरू हुआ चाहता था एक बात और हमारी फैमिली कुछ ज्यादा ही सख्त है लव के मामले में हां तो बात मुलाकात कि चल रही थी मिलने का वक़्त चार बजे का था बता दूं ए चार सुबह का चार था तक़रीबन एक बजे का वक़्त था जब ए बातें हो रहीं थीं अचानक ख्याल आया जब चार बजे मिलना है तो अभी क्यों नहीं बस फिर क्या था चोरों की तरह दरवाजा खोला और बाहर शहरों के रेहाइशी इलाकों में आम तौर से गलियां सुनसान हो जाती हैं सन्नाटा फ़ैला था चारों तरफ सीधी गली के आखिरी कोने में उनका घर मगर नहीं! बन्दा दीसी और अपना दिमाग ...
Comments
Post a Comment